Sunday 13 April 2014

▀••▄•• دنیا کی مثال ••▄••▀


مولانا رومی سے کسی نے دنیا کی حقیقت پوچھی تو آپ نے فرمایا دنیا کی مثال ایسی ھے کے ایک انسان جنگل میں چلا جاتا ھے، دیکھتا ھے کے اس کے پیچھے شیر آ رھا ھے اور وہ بھاگتا چلا گیا۔

پھر کیا دیکھتا ھے کے آگے بڑا سا گڑھا ھے وہ چاھتا ھے کے گڑھے میں گر کر جان بچائے لیکن گڑھے میں اُسے ایک بڑا سا اژدھا نظر آیا اب آگے اژدھے کا خوف اور پیچھے شیر کا ڈر۔

اتنے میں اسے درخت کی ٹہنی نظر آئی، وہ اُسے پکڑ کر درخت پر چڑھ گا مگر درخت پر چڑھنے کے بعد پتا چلا کے اس کی جڑ... کو سیاہ وسفید چوھے کاٹ رھے ھیں وہ شخص بڑا خائف ھوا کے اگر اس درخت کی جڑ کٹ گئی تو پھر میں گر جاؤں گا اور پھر اژدھا یا شیر کا لقمہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

پھر وہ درخت پہ چڑھ گیا۔ اتفاقا اس درخت کے اوپر اُسے شہد کا چھتا نظر آگیا وہ شہد پینے میں اتنا محو ھو گیا کے اُسے شیر اور اژدھے کا خیال نہ رھا۔ اتنے میں درخت کی جڑ کٹ گئی اور وہ نیچے گر پڑا شیر نے اسے چیڑ پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور وھاں اژدھے کے منہ میں چلا گیا۔..............!!!

دوستو!۔
جنگل سے مراد دنیا ھے۔ شیر موت ھے۔ جو انسان کے پیچھے ھر وقت لگی رھتی ھے گڑھا قبر ھے، جو آگے ھے اژدھا بداعمال ھیں جو قبر میں ڈالے جائیں گے اور سیاہ وسفید دن رات ھیں درخت عمر ھے اور شہد کا چھتا دنیائے فانی سے غافل کر دینے والی لذت ھے کہ انسان دنیا کی فکر میں موت اور اعمال بدکی جواب دھی وغیرہ سب کچھ بھول جاتا ھے پھر اچانک موت آجاتی ھے۔

No comments:

Post a Comment