سمیع اللہ ملک، لندن
افغانستان میں امریکی دباؤ پر شمالی اتحاد کے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی کے درمیان صدارتی انتخابات کے تنازعہ اور مخلوط حکومت کے قیام کے بعد وقتی طور پر صدارتی تنازعہ تو ختم ہو گیا تاہم صدر اشرف غنی کو عہدہ سنبھالے سو دن سے زائد ہو گئے ہیں لیکن اب تک اپنی کابینہ کی تشکیل دینے میں ناکام نظر آ رہے ہیں اور ابھی تک کرزئی کے سابقہ وزاراء سے نظامِ حکومت چلایا جا رہا ہے۔ ابھی تک دونوں اتحادی کابینہ کی تشکیل میں اہم وزارتوں کے حصول کیلیے درِپردہ سازشوں میں بھی مصروف ہیں۔ امریکی فوج جس کا مشن اختتام کو پہنچ گیا ہے اور وہ ان دنوں بڑے پیمانے پر رخصت ہو رہی ہے اور ان دنوں کئی فوجی پروازیں بگرام اور قازقستان کے درمیان مناما ائیربیس تک ہزاروں فوجیوں کو منتقل کرنے کے آخری مراحل میں مصروف ہے جس کے بعد انہیں جرمنی کے راستے امریکا منتقل کر دیا جائے گا۔
ان دنوں یہ خدشہ زبان زدِعام ہے کہ امریکی فوج کے نکلتے ہی اتحادی حکومت بھی ٹوٹ جائے گی کیونکہ یکم جنوری ٢٠١٥ء سے افغانستان میں امریکی فوج پر افغان قانون کا اطلاق ختم ہو چکا ہے اور اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ بھی یکم جنوری کو اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے جس کے بعد اسٹرٹیجک معاہدے کے تحت امریکی فوج پر امریکی قانون کے سوا کوئی قانون بھی لاگو نہیں ہو گا تاہم یہ قانون بھی پینٹاگون کے بنائے گئے فوجی قوانین ہوں گے نہ کہ امریکا کے سول لبرٹیز قوانین۔ جس کے بعد امریکی فوج اپنے مخالفین کو قتل کرنے میں آزاد ہو گی اور اسے عالمی عدالت انصاف، اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ میں کسی بھی کاروائی سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ جبکہ اس پرمقامی زمینی قوانین بھی نافذ نہیں ہوں گے۔
عالمی سیاسی تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان زمینی حالات میں امریکا نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ ٢٠١٦ء تک وہ افغانستان میں اپنے مخالفین کو قتل کرے گا جبکہ اس حوالے سے پاکستان سمیت خطے کے ممالک میں مزید بدامنی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ امریکی فوج کی کسی بھی سازش یا منصوبہ بندی پرامریکا کے سوا کسی بھی فورم پر بات نہیں ہو سکے گی اور یہی وجہ ہے کہ امریکا نے صدارتی آرڈیننس کے تحت ٢٠١٦ء تک آپریشنل مدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکا کے اس معاہدے کے بعد افغانستان میں انہیں کسی حکومت کی تشکیل کی ضرورت نہیں ہے لہندا دونوں جانبین ابھی تک اپنے وزاراء نامزد کرنے میں ناکام ہیں۔ حزبِ اسلامی کے ایک اہم رہنماء نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا ہے کہ حزبِ اسلامی کے کئی اہم رہنماؤں کو وزارتوں کی پیشکش دونوں جانب سے کی گئی تھی تاکہ حزبِ اسلامی کو قریب لا کر طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے جبکہ طالبان کے بھی کئی اہم رہنماؤں کو وزارتوں کی پیشکش کی گئی تاہم حزبِ اسلامی اور طالبان دونوں نے وزارتوں کے اس فریب کو مسترد کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہونے سے کلی انکار کر دیا ہے تاہم اشرف غنی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اغلباً طالبان اورحزبِ اسلامی کو تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے امریکا سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دو سال میں افغانستان سے آخری امریکی فوجی کو بھی نکال لینے کی مدت پر نظرِ ثانی کرے جبکہ امریکی صدر بارک اوباما نے ٢٠١٦ء کے آخر میں تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلا لینے کا وعدہ کر رکھا ہے اور اس دوران افغانستان اپنی سکیورٹی کی ذمہ داریاں خود پوری کرنے لگے گا۔
طالبان اور حزبِ اسلامی، دونوں تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کام کرنے کو اس لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکی شکست کھا چکے ہیں اور امریکی شکست کے بعد وہ کسی بھی ایسی حکومت کا حصہ بننے کو تیارنہیں جو امریکا کے کہنے پر سب کچھ کر رہی ہے اور جنہیں عوام کی حمائت بھی حاصل نہیں، اس لیے وہ ایسی حکومت میں شامل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری جانب سابق جہادیوں نے بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے جاتے ہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر حملے ہو سکتے ہیں اس لیے بہت سے لوگ حزبِ اسلامی اور طالبان کے حملوں کے خوف سے کابینہ میں شمولیت سے گریزاں ہیں جبکہ عبدللہ عبداللہ اور اشرف غنی اہم عہدوں پر اپنے عزیزوں کو نامزد کرنے کیلیے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک وہ اہم عہدوں پر تقرریاں نہیں کر سکے جس کی وجہ سے ان کی بات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور صدرکے حکم کے باوجود بھی جنرل ریٹائرڈ بسم اللہ جو وزیرِ دفاع ہیں اور جن کو کرزئی کا بہت قریبی ساتھی مانا جاتا ہے، نے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملافضل اللہ کے خلاف کاروائی سے انکار کر دیا ہے اور صدر کی بات نہیں مان رہے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی حالیہ تمام ناکامیوں پر قابو پانے کیلیے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے اقتدار کی موجودگی کا اس طرح احسا س دلائیں کہ تمام متعلقہ فریقوں تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ افغانستان کے مستقبل کیلیے اہم فیصلوں کیلیے تمام اختیارات انہی کے پاس ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی انتظامی گرفت کو مضبوط کرنے کیلیے مغربی صوبے ہرات کا انتخاب کیا جہاں مغربی صوبے ہرات کے مقامی حکام کو ان کے حالیہ ایک روزہ دورے کی قیمت اس وقت چکانی پڑی جب چند گھنٹوں میں ہی انہوں نے بدعنوانی اور سکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث درجنوں اہلکاروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کر دیا۔ ان میں صوبے کے ١٥/اضلاع کے پولیس سربراہان اور اعلی حکومتی اہلکار شامل تھے۔ رات گئے صدر اشرف غنی نے حیران اخباری رپورٹرز کو بتایا محکمۂ تعلیم، تیل و گیس، بجلی اور کسٹم کے سربراہان کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ان تمام کو نوکریوں سے نکال دیا ہے اور تمام پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس روز نوکریاں کھونے والوں میں سے بیشتر کو طاقت ور تصور کیا جاتا تھا اور ان کے شمالی اتحاد کے کافی مضبوط لوگوں سے تعلقات تھے اس لیے انہیں ناقابلِ گرفت تصور کیا جاتا تھا۔ گو کہ ان افراد کی جگہ تاحال نئی تقرریاں نہیں ہوئیں لیکن یہ اقدام اس حوالے سے ایک ٹھوس پیغام تھا کہ نئی حکومت اب اپنے احکام کی سختی سے پابندی کروانے میں کس قسم کی رعائت دینے کیلیے تیار نہیں ہے۔ اشرف غنی کا اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ جنرل ریٹائرڈ بسم اللہ جس نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے خلاف کاروائی سے انکار کر دیا بلکہ اسے ہر قسم کا تحفظ بھی فراہم کیا ہوا ہے اور بھارت کے ایماء پر پاکستان پر تمام حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی مکمل شامل ہے، اس کے خلاف کیا کاروائی کی جاتی ہے؟
امریکا نے تو ڈاکٹر اشرف غنی سے صرف دستخط کیلیے اپنا کام لینا تھا، اب وہ چاہتا ہے کہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں تاکہ امریکا اپنے منظورِ نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کر سکے جبکہ بھارت چاہتا ہے کہ وہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ذریعے اپنے منظورِ نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرائے اور اس کیلیے بھارتی سفارتخانہ مسلسل شمالی اتحاد کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ایک طرف وزاراء کی نامزدگی پر رسہ کشی جاری ہے تو دوسری جانب حزبِ اسلامی اور طالبان نے مزید مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حزبِ اسلامی اور طالبان نے افغان صدر کی جانب سے قبائلی سرداروں کے رابطے پر انہیں دو ٹوک جواب دیا ہے کہ وہ افغان صدرکے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتے کیونکہ افغان صدر اتنے بے بس ہیں کہ وہ ابھی تک اپنی کابینہ کا انتخاب نہیں کر سکے تو وہ ان کے ساتھ کس طرح مذاکرات کرسکیں گے۔ لہٰذا وہ ایک فیصلہ کن جنگ کیلیے تیار ہیں اور وہ امریکا کے خلاف فیصلہ کن جنگ کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں افغان صدر،طالبان اورحزبِ اسلاامی کے درمیان مذاکرات نہ صرف رک گئے ہیں بلکہ دونوں مزاحمت کارگروپوں کی جانب سے حملے بھی بڑھ گئے ہیں اور اب مشترکہ کاروائیاں شروع کردی گئی ہیں اس کیلئے پہلاانتخاب انہوں نے شمالی افغانستان کاکیاہے تاکہ شمالی افغانستان کاملک کے دیگرحصوں سے رابطہ کاٹ دیاجائے اوراس کے بعد مشرق سے پیش قدمی کی جائے ۔واضح رہے کہ افغانستان میں اپنامشن ختم کرنے کے باوجود١٣٥٠٠/ امریکی اوراتحادی فوج پانچ اڈوں پرتعینات رہے گی جنہیں افغانستان کے طول و عرض میں کاروائیوں کیلئے بڑے پیمانے پرلاجسٹک سہولیات کی ضرورت ہوگی تاہم امریکی فوج اتحادی طیاروں اورڈرون حملوں کے ذریعے آپریشن کرنے کی خواہاں ہے جس سے افغانستان میں بے گناہ افرادخاص کربچے اورخواتین بھی نشانہ بن سکتے ہیں جس سے افغانستان میں اشتعال بڑے گا لہنداافغانستان میں مزیدخونریزی کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے۔ ان حالات میں پاکستان پرمزیدافغان مہاجرین کابوجھ پاکستان پرڈالنے کی آڑمیں درپردہ بہت سے ایسے تربیت یافتہ دہشتگردبھی داخل کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کوپچھلے ایک سال سے ''رااور بلیک واٹر''کے کیمپوں میں تیارکیاگیاہے۔کیاہمارے متعلقہ اداروں نے اس کے سدباب کیلئے کوئی عملی اقدامات کاپلان تیار کررکھاہے؟
افغانستان میں امریکی دباؤ پر شمالی اتحاد کے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی کے درمیان صدارتی انتخابات کے تنازعہ اور مخلوط حکومت کے قیام کے بعد وقتی طور پر صدارتی تنازعہ تو ختم ہو گیا تاہم صدر اشرف غنی کو عہدہ سنبھالے سو دن سے زائد ہو گئے ہیں لیکن اب تک اپنی کابینہ کی تشکیل دینے میں ناکام نظر آ رہے ہیں اور ابھی تک کرزئی کے سابقہ وزاراء سے نظامِ حکومت چلایا جا رہا ہے۔ ابھی تک دونوں اتحادی کابینہ کی تشکیل میں اہم وزارتوں کے حصول کیلیے درِپردہ سازشوں میں بھی مصروف ہیں۔ امریکی فوج جس کا مشن اختتام کو پہنچ گیا ہے اور وہ ان دنوں بڑے پیمانے پر رخصت ہو رہی ہے اور ان دنوں کئی فوجی پروازیں بگرام اور قازقستان کے درمیان مناما ائیربیس تک ہزاروں فوجیوں کو منتقل کرنے کے آخری مراحل میں مصروف ہے جس کے بعد انہیں جرمنی کے راستے امریکا منتقل کر دیا جائے گا۔
ان دنوں یہ خدشہ زبان زدِعام ہے کہ امریکی فوج کے نکلتے ہی اتحادی حکومت بھی ٹوٹ جائے گی کیونکہ یکم جنوری ٢٠١٥ء سے افغانستان میں امریکی فوج پر افغان قانون کا اطلاق ختم ہو چکا ہے اور اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ بھی یکم جنوری کو اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے جس کے بعد اسٹرٹیجک معاہدے کے تحت امریکی فوج پر امریکی قانون کے سوا کوئی قانون بھی لاگو نہیں ہو گا تاہم یہ قانون بھی پینٹاگون کے بنائے گئے فوجی قوانین ہوں گے نہ کہ امریکا کے سول لبرٹیز قوانین۔ جس کے بعد امریکی فوج اپنے مخالفین کو قتل کرنے میں آزاد ہو گی اور اسے عالمی عدالت انصاف، اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ میں کسی بھی کاروائی سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ جبکہ اس پرمقامی زمینی قوانین بھی نافذ نہیں ہوں گے۔
عالمی سیاسی تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان زمینی حالات میں امریکا نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ ٢٠١٦ء تک وہ افغانستان میں اپنے مخالفین کو قتل کرے گا جبکہ اس حوالے سے پاکستان سمیت خطے کے ممالک میں مزید بدامنی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ امریکی فوج کی کسی بھی سازش یا منصوبہ بندی پرامریکا کے سوا کسی بھی فورم پر بات نہیں ہو سکے گی اور یہی وجہ ہے کہ امریکا نے صدارتی آرڈیننس کے تحت ٢٠١٦ء تک آپریشنل مدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکا کے اس معاہدے کے بعد افغانستان میں انہیں کسی حکومت کی تشکیل کی ضرورت نہیں ہے لہندا دونوں جانبین ابھی تک اپنے وزاراء نامزد کرنے میں ناکام ہیں۔ حزبِ اسلامی کے ایک اہم رہنماء نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا ہے کہ حزبِ اسلامی کے کئی اہم رہنماؤں کو وزارتوں کی پیشکش دونوں جانب سے کی گئی تھی تاکہ حزبِ اسلامی کو قریب لا کر طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے جبکہ طالبان کے بھی کئی اہم رہنماؤں کو وزارتوں کی پیشکش کی گئی تاہم حزبِ اسلامی اور طالبان دونوں نے وزارتوں کے اس فریب کو مسترد کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہونے سے کلی انکار کر دیا ہے تاہم اشرف غنی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اغلباً طالبان اورحزبِ اسلامی کو تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے امریکا سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دو سال میں افغانستان سے آخری امریکی فوجی کو بھی نکال لینے کی مدت پر نظرِ ثانی کرے جبکہ امریکی صدر بارک اوباما نے ٢٠١٦ء کے آخر میں تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلا لینے کا وعدہ کر رکھا ہے اور اس دوران افغانستان اپنی سکیورٹی کی ذمہ داریاں خود پوری کرنے لگے گا۔
طالبان اور حزبِ اسلامی، دونوں تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کام کرنے کو اس لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکی شکست کھا چکے ہیں اور امریکی شکست کے بعد وہ کسی بھی ایسی حکومت کا حصہ بننے کو تیارنہیں جو امریکا کے کہنے پر سب کچھ کر رہی ہے اور جنہیں عوام کی حمائت بھی حاصل نہیں، اس لیے وہ ایسی حکومت میں شامل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری جانب سابق جہادیوں نے بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے جاتے ہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر حملے ہو سکتے ہیں اس لیے بہت سے لوگ حزبِ اسلامی اور طالبان کے حملوں کے خوف سے کابینہ میں شمولیت سے گریزاں ہیں جبکہ عبدللہ عبداللہ اور اشرف غنی اہم عہدوں پر اپنے عزیزوں کو نامزد کرنے کیلیے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک وہ اہم عہدوں پر تقرریاں نہیں کر سکے جس کی وجہ سے ان کی بات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور صدرکے حکم کے باوجود بھی جنرل ریٹائرڈ بسم اللہ جو وزیرِ دفاع ہیں اور جن کو کرزئی کا بہت قریبی ساتھی مانا جاتا ہے، نے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملافضل اللہ کے خلاف کاروائی سے انکار کر دیا ہے اور صدر کی بات نہیں مان رہے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی حالیہ تمام ناکامیوں پر قابو پانے کیلیے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے اقتدار کی موجودگی کا اس طرح احسا س دلائیں کہ تمام متعلقہ فریقوں تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ افغانستان کے مستقبل کیلیے اہم فیصلوں کیلیے تمام اختیارات انہی کے پاس ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی انتظامی گرفت کو مضبوط کرنے کیلیے مغربی صوبے ہرات کا انتخاب کیا جہاں مغربی صوبے ہرات کے مقامی حکام کو ان کے حالیہ ایک روزہ دورے کی قیمت اس وقت چکانی پڑی جب چند گھنٹوں میں ہی انہوں نے بدعنوانی اور سکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث درجنوں اہلکاروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کر دیا۔ ان میں صوبے کے ١٥/اضلاع کے پولیس سربراہان اور اعلی حکومتی اہلکار شامل تھے۔ رات گئے صدر اشرف غنی نے حیران اخباری رپورٹرز کو بتایا محکمۂ تعلیم، تیل و گیس، بجلی اور کسٹم کے سربراہان کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ان تمام کو نوکریوں سے نکال دیا ہے اور تمام پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس روز نوکریاں کھونے والوں میں سے بیشتر کو طاقت ور تصور کیا جاتا تھا اور ان کے شمالی اتحاد کے کافی مضبوط لوگوں سے تعلقات تھے اس لیے انہیں ناقابلِ گرفت تصور کیا جاتا تھا۔ گو کہ ان افراد کی جگہ تاحال نئی تقرریاں نہیں ہوئیں لیکن یہ اقدام اس حوالے سے ایک ٹھوس پیغام تھا کہ نئی حکومت اب اپنے احکام کی سختی سے پابندی کروانے میں کس قسم کی رعائت دینے کیلیے تیار نہیں ہے۔ اشرف غنی کا اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ جنرل ریٹائرڈ بسم اللہ جس نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے خلاف کاروائی سے انکار کر دیا بلکہ اسے ہر قسم کا تحفظ بھی فراہم کیا ہوا ہے اور بھارت کے ایماء پر پاکستان پر تمام حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی مکمل شامل ہے، اس کے خلاف کیا کاروائی کی جاتی ہے؟
امریکا نے تو ڈاکٹر اشرف غنی سے صرف دستخط کیلیے اپنا کام لینا تھا، اب وہ چاہتا ہے کہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں تاکہ امریکا اپنے منظورِ نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کر سکے جبکہ بھارت چاہتا ہے کہ وہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ذریعے اپنے منظورِ نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرائے اور اس کیلیے بھارتی سفارتخانہ مسلسل شمالی اتحاد کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ایک طرف وزاراء کی نامزدگی پر رسہ کشی جاری ہے تو دوسری جانب حزبِ اسلامی اور طالبان نے مزید مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حزبِ اسلامی اور طالبان نے افغان صدر کی جانب سے قبائلی سرداروں کے رابطے پر انہیں دو ٹوک جواب دیا ہے کہ وہ افغان صدرکے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتے کیونکہ افغان صدر اتنے بے بس ہیں کہ وہ ابھی تک اپنی کابینہ کا انتخاب نہیں کر سکے تو وہ ان کے ساتھ کس طرح مذاکرات کرسکیں گے۔ لہٰذا وہ ایک فیصلہ کن جنگ کیلیے تیار ہیں اور وہ امریکا کے خلاف فیصلہ کن جنگ کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں افغان صدر،طالبان اورحزبِ اسلاامی کے درمیان مذاکرات نہ صرف رک گئے ہیں بلکہ دونوں مزاحمت کارگروپوں کی جانب سے حملے بھی بڑھ گئے ہیں اور اب مشترکہ کاروائیاں شروع کردی گئی ہیں اس کیلئے پہلاانتخاب انہوں نے شمالی افغانستان کاکیاہے تاکہ شمالی افغانستان کاملک کے دیگرحصوں سے رابطہ کاٹ دیاجائے اوراس کے بعد مشرق سے پیش قدمی کی جائے ۔واضح رہے کہ افغانستان میں اپنامشن ختم کرنے کے باوجود١٣٥٠٠/ امریکی اوراتحادی فوج پانچ اڈوں پرتعینات رہے گی جنہیں افغانستان کے طول و عرض میں کاروائیوں کیلئے بڑے پیمانے پرلاجسٹک سہولیات کی ضرورت ہوگی تاہم امریکی فوج اتحادی طیاروں اورڈرون حملوں کے ذریعے آپریشن کرنے کی خواہاں ہے جس سے افغانستان میں بے گناہ افرادخاص کربچے اورخواتین بھی نشانہ بن سکتے ہیں جس سے افغانستان میں اشتعال بڑے گا لہنداافغانستان میں مزیدخونریزی کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے۔ ان حالات میں پاکستان پرمزیدافغان مہاجرین کابوجھ پاکستان پرڈالنے کی آڑمیں درپردہ بہت سے ایسے تربیت یافتہ دہشتگردبھی داخل کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کوپچھلے ایک سال سے ''رااور بلیک واٹر''کے کیمپوں میں تیارکیاگیاہے۔کیاہمارے متعلقہ اداروں نے اس کے سدباب کیلئے کوئی عملی اقدامات کاپلان تیار کررکھاہے؟
No comments:
Post a Comment